۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
News ID: 363067
7 اکتوبر 2020 - 00:55
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/ شیعوں کے متحارب گروپ جہاں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہیں دشمن، قوم، قبیلہ و گروہ بندیوں سے ما وراء ایک متمدن قوم کو دنیا میں وحشی قوم کی صورت متعارف کرانے کے در پے تھا۔

تحریر : مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | یہ سفر اپنی نوعیت اور وقت کے لحاظ سے بالکل منفرد سفر تھا ایسا سفر کہ شاید پھر زندگی میں کبھی ایسا تجربہ نہ ہو جیسا اس سفر میں ہوا یہ ۲۰۰۳ءکی گرمیوں کی بات ہے جب عراق میں صدام کا تختہ پلٹا اور صدام کے  معروف۔مجسمہ کو بغداد کے الفردوس اسکوائر پر کرین کے ذریعہ اکھاڑ پھینکا گیا یہ امر اس بات کا گواہ تھا کہ مظلوموں کا خون پینے والے مطلق العنان شہنشاہ کے
عہد کا خاتمہ ہو گیا اور اب ایک نئے دور کا آغاز ہے ۔گرچہ سقوط بغداد کےبعد اب صدام کا پہلے جیساخوف نہ تھا لیکن پھر بھی لوگوں کی آنکھوں میں یہ خوف کے سایوں کو دیکھا جا سکتا تھا اسکی وجہ بھی یہ تھی کہ سب کو پتہ تھا کہ یہ مطلق العنان آمر  زندہ ہے اور ماضی کے تلخ تجربات یہ کہہ رہے تھے کہ جب تک اس کے مر جانے یا گرفتار ہو جانے کی تصدیق نہ ہو اس کے تسلط سے نجات پانےکی خوشیاں بر سر عام نہیں منائی جا سکتیں اور نہ اس کے ممکنہ رد عمل سےغفلت برتی جا سکتی ہے کچھ ایسے ہی خوف و ہراس کے درمیان یہ خبر عام ہوگئی کہ کربلا کا راستہ کھل گیا ہے اور لوگ جوق در جوق زیارت کربلا سےمشرف ہو رہے ہیں پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ایران کے عراق سے متصل تمام بارڈروں پر عاشقان حسین کا ایک سیلاب امنڈ پڑا جسکو روکنا کسی حکومت کے بس میں نہ تھا عراق کی کمان جنگ کے فورا بعد امریکہ کی طرف سے معین حاکم پال بلمر کے ہاتھوں میں تھی اور عراق میں چھٹ پٹ جھڑپیں ہو رہی تھیں
کچھ پتہ نہیں تھا کون کس پر کب حملہ کر دے کبھی امریکیوں کی گاڑیوں پرگھات لگا کر حملہ کیا جاتا تو کبھی بعثی درندے شیعوں اور زائرین کو نشانہ بناتے اور بعض جگہوں پر خود شیعہ قبائل ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے جس کا اندازہ سقوط بغداد کے بعد نجف میں بزرگ مراجع کے گھروں کی گھیرا بندی  اور آیت اللہ خوئی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بیٹے عبد المجید خوئی کے قتل  سے لگایا جا سکتا ہے شیعوں کے متحارب گروپ جہاں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہیں دشمن، قوم، قبیلہ و گروہ بندیوں سے ما وراء ایک متمدن قوم کو دنیا میں وحشی قوم کی صورت متعارف کرانے کے در پے تھا۔

ایسے میں عراق جانا خطرہ سے خالی نہ تھا لیکن اس کے باوجود ہر خطرہ کو نظر انداز کر کے عاشقان حسینی کا ایک سیل رواں تھا جوعراق ایران بارڈر پر پہنچنے کے لئے بیتاب تھا جبکہ عراق کی صورت حال کے واضح نہ ہونے کی بنا پر اور زمام حکومت امریکی ہاتھوں میں ہونے کے سبب ایران نے مطلع عراق صاف ہونے تک پہلے تو اپنے باشندوں پر عراق جانے کے لئیے پابندی لگائی لیکن جب اسکا بھی کوئی نتیجہ بخش اثر نہ ہوا تو عراق جانے والی بیشتر سرحدوں کو سیل کر دیا کیونکہ اس وقت زائرین کی جان کو سخت خطرہ تھا یا راستے میں چور اچکے لوٹ مار کر ان کا سازو سامان چھین لیتے یا شیعہ دشمن عناصر انہیں زود کوب کرتے یا عراق پہنچ جانے کے بعد وہاں کی نا امنی کی نظر ہو جاتے کچھ پتہ نہیں تھا ساتھ میں چلنے والی کونسی گاڑی آر ڈی ایکس اور دھماکہ خیز مادہ لیکر چل رہی ہے اور کب پھٹ جائے ؟ ایسے میں جب سرکاری طور پر عام منادی کرا دی گئی کہ تااطلاع ثانوی ایرانی باشندے عراق کا سفر نہ کریں تو لوگوں نے غیر قانونی راستہ اختیار کیا اور عراق کی سرحدوں اور علاقوں کی جانکاری رکھنے والے لوگوں کی رہنمائی میں ایران و عراق کی فورسزز سے چھپتے چھپاتے کربلا جانےلگے ۔
تمام تر خطروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لوگوں کی کربلا جانے کی منطق یہ تھی فی الحال موقع ہاتھ آیا ہے تو کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے  صدام کی حکومت کا تختہ پلٹ جانے کے بعد کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ کل کیا ہو کسی کو نہیں معلوم ؟ کچھ پتہ نہیں کہ امریکہ کہیں دوبارہ اسے مسلط نہ کر دے اور پھر آنے والے کل میں زیارت کربلا کے لئیے کیا قوانین وضع ہوں فی  الحال سب سے اچھا موقع ہے زیارت کے لئے اسے ہاتھ سے نہیں گنواناچایہے اسی لئیے لوگوں کے اند کربلا کی زیارت کو لیکر بہت جوش تھا ۔مدرسہ امام خینی رحمہ اللہ تعالی علیہ  پر حوض کے پاس رات کے کھانے کے بعد اکثر طلاب کاموضوع گفتگو یہی ہوتا کہ کیسے خود کو کربلا پہنچایا جائے اور کیا تدبیرکی جائے کہ کربلا پہنچ سکیں اسی دوران ہمارے ایک بزرگ و محترم دوست مولانا جعفر حسین صاحب فیض آبادی کہیں سے یہ خبر لائے کہ وہ کسی ایسے کوجانتے ہیں جو ہمیں عراق کے بارڈر تک کسی بلدی یعنی راہنما کے حوالے کرسکتا ہے اور پھر وہ بلدی ہمیں عراق تک پہنچا دے گا بس پھر کیا تھا  ہم لوگ اس سے ملنے پہنچ گئے اور جانے کا وقت اور دن مقرر ہو گیا اب بات اجازت کی تھی کہ مدرسہ سے کیسے اجازت حاصل کی جائے سفر کے درپیش ممکنہ خطرات کے کو دیکھتے ہوئے بہت سخت تھا کہ مدرسہ کی طرف سے ہمیں اجازت ملجائے وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ سرکاری طور عراقی بارڈرز تک پر جانے پرپابندی تھی بہر حال ہم نے اسکا حل یہ نکالا کہ اپنے پرنسپل سے شفاہی اجازت حاصل کی جائے تاکہ کسی بھی حادثہ کی صورت میں کوئی چیز ریکارڈ میں نہ رہے اور مدرسہ کے اوپر کوئی بات نہ آئے  یہ خیالی پلاو تو ہمارا تھا لیکن ذہن میں بار بار یہ بات آ رہی تھی کہ چھٹی ملنا مشکل ہے کیونکہ
بظاہر ہمارے اس قدم میں کوئی منطق نظر نہیں آ رہی تھی لیکن کبھی کبھی حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ خود منزلیں آپکے قدموں میں آنے کو تیار ہوتی ہیں چاہے ظاہری طور پر منزل کتنی ہی دشوار کیوں نہ ہو نماز مغربین کے بعدہم مدرسہ کے دلسوز و دردمند مدیر حجہ الاسلام والمسملین جناب آقائے سجاد ہاشمیان حفظہ اللہ کے پاس پہنچے جو اپنی کار اسٹارٹ کر رہے تھے اور اگرتھوڑی دیر میں پہنچتے تو وہ جا چکے ہوتے ہم نے سلام کیا اور مدعا بیان کیا انہوں نے فورا کہا ٹھیک ہے بس اپنا دھیان رکھنا میں سفر کربلا سےنہیں روکونگا  بس اتنا ہے کسی مطمئن ہمراہ کے ساتھ جانا جانا ہے تو جاویہ بات بہت آسان ہے لیکن جو ایران میں ادارہ جات اور یہاں کے دفتری کام کاج کے طریقوں سے واقف ہیں وہ یقینا سمجھ سکتے ہیں کہ اس طرح وہ بھی خاص
شرایط میں کربلا جانے کی اجازت مل جانا معجزہ سے کم نہیں ۔
اجازت مل جانے کے بعد اب سفر کی منصوبہ بندی کا مرحلہ تھا ہمارے ساتھ دوایرانی لوگ تھے  ایک جعفر بھائی اور ایک ہم دو ہندوستانی اور دو ایرانی
یہ بھی عجیب بات تھی عموما جو لوگ کربلا کم از کم انکا قافلہ ۲۰ سے ۲۵ لوگوں پر مشتمل ہوتا لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ ہم چار لوگ نکلے اور تمام راستہ خود بخود کھلتے چلے گئے سفر سے ایک شب قبل مولانا غلام حسین صاحب سہیل اور جناب محمد حسن دھولڑی سے بات ہوئی اور یہ طے پایا کہ ہم لوگ آپ کے بعد تیار ہیں آپ لوگ وہاں پہنچ کر ہمیں بتا ئیں تاکہ پھر ہم بھی اپنا رخت سفر باندھیں فی الحال معاملہ سفر کے ممکنہ خطرات سے نپٹنے کی حکمت عملی کا تھا جس میں غلام حسین صاحب اور محمد حسن دھولڑوی صاحب دونوں ہی نے گراں قدر مشورےدئے جنکو بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں ہے البتہ ہم نے ایرانی و عراقی فورسزکی جانب سے فائرنگ سے لیکر مائنز پھٹنے تک کی تفصیلات معلوم کر لی تھی حتیکہ گولی تک لگ جانے کی صورت میں ابتدائی امداد کا سامان ہم نے سفر میں ساتھ رکھ لیا تھا ۔
وہ گھڑی بھی آ گئی جب ہم ٹیکسی میں سوار ہو کر مہران کے لئیے نکل پڑے ہمارے ساتھ ایک ایرانی نوجوان علی نصیری اور ایران کےمعروف  ٹی وی پروگرام سمت خدا میں مھدویت کے موضوع پر مسلسل لائو پروگرام پیش کرنے والے جناب آقای حیدری کاشانی تھے البتہ اس وقت انہیں کوئی نہیں جانتا تھا ٹیکسی میں مختلف ایرانی نوحے چل رہے تھے اور ہمارے سامنے کربلاکا منظر تھا ہماری گاڑی شہر قم سے نکل کر تیزی کے ساتھ ایلام کی طرف گامزن تھی چاند تارے اور آسمان کی وسعتیں سب کچھ سمٹ کر ہماری پیکان نامیٹیکسی کو دیکھ رہے تھے اور ہم ان سے بے خبر سر سر کرتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے تھے ٹیکسی میں ایران کے معروف نوحے خوان اکبر شریعت کی صدائیں گونج رہی تھیں کربلا کربلا ما داریم می آییم ۔۔۔۔

جاری ہے٠٠٠٠

 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .